’’خارجی گروہوں کی ظاہری دین داری سے دھوکہ نہ کھایا جائے‘‘
خوارج تلاوت قرآن اور نماز روزہ کے سخت پابند تھے، ان کی گفتگو میں دنیا کی بے ثباتی، زہد و تقويٰ کی ترغیب و تحریص، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بہت زیادہ اہتمام اور امارت اور عہدہ قبول کرنے سے ہر ایک کا عذر و گریز ایسے اُمور ہیں کہ ان امور کا پایا جانا کسی بھی شخص کو ظاہراً دین دار بلکہ متقی اور مجاہد سمجھنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابن ماجہ اور احمد بن حنبل حضرت ابو سلمہ سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت ابو سلمہ نے بیان کیا ہے :
1. قُلْتُ لِأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه : هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ فِي الْحَرُورِيَّةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ يَذْکُرُ قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ (وفي رواية أحمد : يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصَومَهُ مَعَ صَومِهِمْ.
1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 : 60، رقم : 169
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 33، رقم : 11309
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 557، رقم : 37909
’’میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا : (ہاں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گروہ کا ذکر فرمایا جو خوب عبادت کرے گا، (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں کمتر سمجھوگے۔‘‘
یہی سبب ہے کہ خود کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے معاملے میں شبہ وارد ہوتا تھا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے شخص کہتے ہیں کہ ایسے زاہد و عابد لوگ میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ جیسا کہ امام حاکم اور نسائی کی بیان کردہ درج ذیل روایت میں بیان ہوا ہے :
2. قال عبد اﷲ بن عباس : فأتيتهم وهم مجتمعون فی دارهم قائلون، فسلمت عليهم. فقالوا : مرحبا بک يا ابن عباس. قال ابن \
عباس : وأتيت قومًا لم أر قومًا قط أشد اجتهادًا منهم مسهمة وجوهم من السهر کأن أيديهم ورکبهم تثنی عليهم.
عباس : وأتيت قومًا لم أر قومًا قط أشد اجتهادًا منهم مسهمة وجوهم من السهر کأن أيديهم ورکبهم تثنی عليهم.
1. حاکم، المستدرک، 2 : 164، رقم : 2656
2. نسائی، السنن الکبريٰ، 5 : 165، رقم : 8575
3. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 158
4. طبرانی، المعجم الکبير، 10 : 257، رقم : 10598
5. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 179
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے) ان کے پاس ایک گھر میں گیا جہاں وہ سب جمع تھے۔ میں نے ان پر سلام کیا۔ انہوں نے اس کے جواب میں کہا : مرحبا! اے ابن عباس (یعنی صحابی رسول کو جواباً وعلیکم السلام بھی نہ کہا)۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے ان لوگوں سے زیادہ عبادت میں مجاہدہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کے چہرے زیادہ جاگنے کی وجہ سے سوکھ گئے تھے اور ہاتھ پاؤں ٹیڑھے معلوم ہوتے تھے۔‘‘
3۔ خوارج کی کثرت عبادت و ریاضت کا حال حضرت جندب رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں :
لما فارقت الخوارج عليًّا خرج فی طلبهم وخرجنا معه، فانتهينا إلی عسکر القوم فإذا لهم دوي کدوي النحل من قراء ة القرآن، وفيهم أصحاب الثفنات وأصحاب البرانس، فلما رأيتهم دخلني من ذلک شدة فتنحيت فرکزت رمحي ونزلت عن فرسي ووضعت برنسي، فنشرت عليه درعي، وأخذت بمقود فرسي فقمت أصلي إلی رمحي وأنا أقول فی صلاتي : اللهم إن کان قتال هؤلاء القوم، لک طاعة فإذن لي فيه، وإن کان معصية فأرني براء تک.
1. طبرانی، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 4 : 227
3. عسقلانی، فتح الباری، 12 : 296
4. شوکانی، نيل الأوطار، 7 : 349
’’جب خوارج علیحدہ ہو گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے تعاقب میں نکلے تو ہم بھی ساتھ تھے۔ جب ہم خوارج کے لشکر کے قریب پہنچے تو قرآن مجید پڑھنے کا ایک شور سنائی دیا۔ ان خوارج کی یہ حالت تھی کہ تہبند بندھے ہوئے، ٹوپیاں اوڑھے ہوئے کمال درجہ کے زاہد و عابد نظر آتے تھے۔ ان کا یہ حال دیکھ کر ان سے قتال مجھ پر نہایت شاق ہوا۔ میں نے ایک طرف نیزہ گاڑ کر ٹوپی اور زرہ اس پر لگا دی اور گھوڑے سے اتر کر نیزہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کی اور اس میں یہ دعا کی : ’’الٰہی! اگر اس گروہ کا قتل کرنا تیری طاعت ہے تو مجھے اجازت مل جائے اور اگر معصیت ہے تو مجھے اس رائے پر آگاہی نصیب ہوجائے۔‘‘
حضرت جندب رضی اللہ عنہ پر خوارج کے ظاہری زہد و عبادت اور تدین کا اتنا اثر تھا کہ ان کے ساتھ جنگ کرنے میں بھی متردد تھے۔ انہوں نے بالآخر اسی لمحہ سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور پیشین گوئیاں سنیں جو درست ثابت ہوئیں۔ اس سے ان کو شرح صدر نصیب ہوگیا کہ یہ ہلاک کیے جانے کے ہی مستحق ہیں۔
دور حاضر کے خوارج ظاہری لحاظ سے بڑے متقی و پرہیزگار نظر آتے ہیں، مگر اپنی باطنی کیفیت، دین دشمن کارروائیوں اور ناحق قتل و غارت گری و دہشت گردی کے پیش نظر احادیث میں انہیں سب سے بڑا فتنہ اور بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ وہ بے شک قرآن مجید کی آیات پڑھتے ہیں مگر کافروں کے بارے میں وارد ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کرتے ہیں۔ اپنی نام نہاد فکر کی بناء پر مسلمانوں کو کافر بنا کر ان کے قتل کا جواز بناتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment