Saturday 28 April 2018

Yahood o Nasara or Mushrikeen e Makkah ka Qabar Pr Masjad Banana or un ki Poja ( Ibadat ) Krny wali Hadiths ki Sharah

مطالعہء قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہّ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بالکل منکر نہیں تھے بسا اوقات وہ اللہ تعالیٰ کو ایک اور سب سے بالا و برتر ہستی مانتے تھے مگر ان کا شرک توحید فی الالوہیت کے باب میں تھا اسی بناء پر ان کے ہاں عقیدہِ توحید کے باب میں خرابی، توحیدِ ربوبیت کی نسبت توحیدِ الوہیت میں زیادہ تھی۔ قبل از اسلام یہود اور دیگر مشرکین عرب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کی طرح اپنے بتوں کو مختلف قبائل سے منسوب کر کے اس کی پوجا کرتے تھے۔ کچھ لوگ تو قبروں کو براہ راست سجدہ کرتے اور بعض قبائل ان قبروں کے اوپر اس مدفون کا بت یا ان کی تصاویر بنا کر رکھ لیتے اور اس کو سجدہ کرتے تھے۔ سجدہ کرتے ہوئے ان کا تصور یہی ہوتا تھا کہ یہ بت اور مدفون شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں۔ ان کا یہی عمل در اصل شرک فی الاُلوہیت تھا۔

امام بخاری نے ان کے اس مشرکانہ عمل کو اس طرح روایت کیا ہے۔

1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کے متعلق فرمایا :

لَعَنَ اﷲُ اليَهُوْدَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.

’ اﷲ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجود بنا لیا تھا (یعنی وہ براہِ راست قبروں کی عبادت کرتے تھے)۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1 : 165
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1 : 376، رقم : 529

2۔ اس طرح ایک اور روایت میں ان کے اس مشرکانہ رجحان اور وطیرہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید واضح فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :

أَنَّ أُمَّ حَبِيْبَةَ وَ أُمَّ سَلَمَةَ ذَکَرَتَا کَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَکَرَتَا لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالََ : إِنَّ أُولَئِکَ إِذَا کَانَ فِيْهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَی قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْکَ الصُّوَرَ فَأُولَئِکَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اﷲِ يَوْمَ القِيَامَةِ.

’’حضرت اُمِ حبیبہ اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہما نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا جس میں بت اور مورتیاں تھیں، پس انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے اور اس میں اس کی مورتی بنا لیتے۔ وہ لوگ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1 : 165، رقم : 417
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1 : 375، رقم : 528

3۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے :

صَارَتِ الأوْثَانُ الَّتِي کَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي العَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وَدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَ أَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَ أَمَّا يَغُوثُ کَانَتْ لِمُرَادٍ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ، وَ أَمَّا يَعُوقَُ فَکَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَ أَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِی الکَلاَعِ، أَسْمَائُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِن قَوْمِ نُوْحٍ، فَلَمَّا هَلَکُوْا أَوحَی الشَّيْطَانُ إِلَی قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِهِمُ الَّتِي کَانُوْا يَجْلِسُوْنَ أَنْصَابًا وَ سَمُّوهَا بِأَسْمَائِ هِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّی إِذَا هَلَکَ أُولٰئِکَ وَ تَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ.

’’جو بت حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہل عرب نے اپنے معبود بنا لئے۔ وَد بنی کلب کا بت تھا جو دومۃ الجندل کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ سواع بنی ہذیل کا بت تھا، یغوث بنی مراد کا بت تھا، پھر یہی بنی غطیف کا بھی الٰہ بن گیا جو سبا کے پاس جوف میں تھا۔ یعوق قبیلہ ہمدان کا اور نسر ذی الکلاع کی آلِ حمیر کا بت تھا۔ یہ حضرت نوح کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اﷲ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان صالحین کے نام پر ہی رکھ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان کی پوجا و پرستش ہونے لگ گئی۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ودًا ولا سواعًا ولا یغوث ولا یعوق، 4 : 1873، رقم : 4636


مندرجہ بالا تینوں روایات سے درجِ ذیل امور واضح ہوئے :

مشرکین نے پہلے زمانوں کے انبیاء و صالحین کی قبور کو ہی مسجود یا مسجود الیہ بنا لیا تھا۔ اور وہ ان کی عبادت کرتے تھے۔ یہ مشرکینِ یہود ونصاریٰ کا معمول تھا، کہ وہ ان قبروں کو سجدہ بھی کرتے تھے، اپنی نمازوں میں انہیں قبلہِ توجہ بھی بناتے تھے اور انہیں اپنا معبود بھی تصور کرتے تھے۔ ان تینوں امور کی تصریح حدیث البخاری : 427 کی شرح میں امام عسقلانی اور امام عینی نے کی ہے۔ اور اسے سب نے امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

عیسائی مشرکین نے اپنے کنیساؤں میں بھی (جوکہ انکی عبادت گاہیں تھیں) صالحین سے منسوب بت رکھے ہوئے تھے، جنکی وہ عبادت کرتے اور تعظیم بھی کرتے مستزاد یہ کہ ان کی قبروں اور بتوں کو اپنا معبود (آلہہ) تصور کرتے تھے۔

مشرکینِ مکہ کے مختلف قبائل نے بھی کعبۃ اللہ کے اردگرد اور دیگر مقامات پر انہیں بتوں کے نام پر ’’تھان‘‘ (چبوترے) بنا رکھے تھے۔ ان پر بسا اوقات انہیں جھوٹے خداؤں (آلہہ) کے بت بھی نصب ہوتے اور وہ انہی چبوتروں پر ان بتوں کے لئے جانور بھی ان کی عبادت کی نیت سے ذبح کرتے تھے، جسے قرآن مجید میں ’’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘‘ کہا گیا ہے۔

وہ مشرکین، ذبح کے بعد انہی چبوتروں پر ان جانوروں کے خون بھی ان بتوں کی عبادت اور تقرّب کی نیت سے مَل دیتے تھے۔

وہ اس خود ساختہ مشرکانہ عبادت کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور شفاعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

ان تمام مشرکانہ امور کو قرآن و حدیث کے ذریعے رد کر دیا گیا۔

مذکورہ بالا حدیث کے ان الفاظ’’اتخذوا قبور انبياء هم مساجدا‘‘سے تمام محدثین اور شارحین نے بلا اختلاف یہ مراد لیا ہے :

مفاد الحديث منع إتخاذِ القبر مسجداً، ومدلول الترجمة إتخاذِ المسجد علی القبر.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3 : 201

یعنی حدیث کا مفاد قبر کو مسجود بنانے سے منع کرنا ہے، اور ترجمۃ الباب کا مدلول مسجد کا قبر کے اوپر بنانے سے منع کرنا ہے تاکہ قبر، نہ تو معبود اور
مسجود لہ بنائی جائے، اور نہ ہی مسجود الیہ بنائی جائے۔ یہی وضاحت امام کِرمانی،
امام عینی اور دیگر سب ائمہ نے کی ہے۔ اسی کی تصریح امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں بھی کی ہے، قرطبی روایتِ صحیح مسلم ’’لا تصلوا الی القبور‘‘ کی توضیح میں لکھتے ہیں :

أی لا تتخذوها قبلة.

’’یعنی قبور کو قبلہ نہ بناؤ۔‘‘

قرطبی، المفہم، 2 : 628

یہی معنی امام سیوطی نے مرقاۃ الصعود میں بیان کیا ہے :

المعنی أنهم کانوا يسجدون إلی قبورهم.


’’اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ان کی قبور کو سجدہ کیا کرتے تھے۔‘‘

پھر بیان کرتے ہیں :

وقيل : النهی عن السجود علی قبور الأنبيائ، وقيل : النهی عن اتخاذها قبلةً يصلی إليه.

’’یہ کہا گیا ہے کہ نہی اس امر کی ہے کہ انبیاء کی قبور پر سجدہ نہ کیا جاہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں قبلہِ نماز نہ بنایا جائے یعنی ان کی سمت منہ کرکے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘

ملّا علی القاری نے ’’الاوجز‘‘ میں بھی یہی لکھا ہے :

سبب لعنهم إما لانّهم کانوا يسجدون لقبور أنبيائهم تعظيمًا لهم … وإما التوجه الی قبورهم حالة الصلاة.

’’یہود و نصاری پر لعنت کا سبب یا تو یہ تھا کہ وہ اپنے انبیاء کی قبور کو ان کی تعظیم کی خاطر سجدہ کرتے تھے اور یا یہ تھا کہ وہ حالتِ نماز میں ان قبور کی طرف چہرہ کرتے تھے۔‘‘

ان تمام امور سے نہ تو انبیا و صالحین کے مزاراتِ مقدّسہ کی زیارت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے قرب و جوار سے حصولِ برکت کا انکار ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ اسکے برعکس صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث عائشہ رضی اﷲ عنہا کی شرح میں امام عسقلانی اور امام عینی سمیت سب نے تصریح کی ہے :

فأمّا من اتّخذ مسجدًا فی جوار صالحٍ، وقصد التبرک بالقرب منه، لا التعظيم له و لا التوجه نحوه فلا يدخل فی ذالک الوعيد.

’’پس اگر کسی نے اولیاء و صالحین کے مزار کے قریب مسجد بنائی اور اس کے قرب سے حصول برکت کا ارادہ کیا تو یہ جائز ہے بشرطیکہ تعمیر مسجد قبر کی تعظیم یا اسے قبلہِ توجہ بنانے کے لئے نہ ہو، سو ایسا عمل اس ممانعت میں داخل نہیں ہوتا۔‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 1 : 525
عینی، عمدة القاری، 4 : 174

یہی جواز قاضی البیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ اسی کو امام الطیبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی وضاحۃ بیان کیا ہے۔ اسی قول کو تائیدًا علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں متذکرہ حدیث کے تحت بیان کیا ہے۔ بلکہ اختتام پر یہ کلمات بھی نقل کئے ہیں۔

فلا بأس به و يُرجی فيه النفع ايضًا.

’’اس میں (یعنی مزارات اولیاء و صالحین کے قرب میں مسجد بنانا اور اس سے تبرک کرنا یعنی حصولِ برکت کا ارادہ کرنا جائز ہے۔ اس میں) کوئی حرج نہیں بلکہ اس سے نفع و فیض کی اُمید بھی رکھنی چاہئے۔‘‘

انور شاہ کشمیری، فیض الباری، 2 : 58

حتی کہ قاضی بیضاوی کے اس قولِ جواز کو اور مذکورہ بالا ساری تفصیل کو علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی فتح الملھم بشرح صحیح الامام مسلم میں بیان کیا ہے۔ رہ گئی قبورِ صالحین کی زیارت تو یہ خود سنت ہے۔

شبیر احمد عثمانی، فتح الملھم، 3 : 354، 355

جس کی تصریح امام عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘ میں کی ہے اور بنیاد اس کی احادیثِ صحیحہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابہ کرام کا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہما کا عمل ہے اور ان کی قبور مقدسہ کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا بھی جائز ہے۔ جس کی تائید امام شافعی، امام ابن حبان، امام ابن ابی حاتم الرازی، خطیب بغدادی، امام ابن عساکر، امام ذہبی، امام نووی، امام سخاوی، امام ابن حجر، حافظ ابن کثیر، امام سیوطی سے لیکر امام ابن عابدین ث تک سب ائمہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کی تصریحات سے ملتی ہے۔

آج جو لوگ مزاراتِ انبیاء و اولیاء کی تعظیم کو شرک کے زمرے میں شامل کرتے ہیں اور مزارات پر حاضری کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں انہیں دراصل مشرکین کے اسی عمل سے مغالطہ ہوتا ہے حالانکہ مشرکین کا عمل مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر واضح اور صریح شرک تھا۔ ان دونوں افعال میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں کو ایک جیسا سمجھنے سے قبل ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شرک کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی حقیقت اور تاریخ کو ملحوظ رکھا کریں۔ توسل تعظیم اور عبادت میں واضح فرق کو سامنے رکھے بغیر فتوی لگانے سے ہی فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

اہلِ اسلام کا عمل اس سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان مزارات پر صرف اس لیے جاتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو اﷲ تعالیٰ کی قربت، محبت اور اطاعت کی وجہ سے قابلِ احترام سمجھتے ہیں۔ نہ وہاں پر کسی ولی کا بت اور مورتی بنائی جاتی ہے، نہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی چبوترے پر جانور ذبح کر کے خون ملا جاتا ہے۔ الغرض اسبابِ شرک میں کوئی سبب اہلِ اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ رہا قبروں کا احترام کرنا اور ان پر دعا و توسل کے لئے جانا تو یہ نصِ حدیث سے ثابت ہے۔


حضرت بریدہ ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ القُبُورِ فَزُوْرُوْهَا.

’’میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب زیارت کیا کرو۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربہل فی زیارة قبر أمہ، 2 : 672، رقم : 977
ترمذی، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی الرخصة فی زیارة القبور، 4،3 : 370، رقم : 1054 و زاد : (فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَةَ)
ابوداود، السنن، کتاب الجنائز، باب فی زیارة القبور، 3 : 218، رقم : 3235

اہلِ اسلام صالحین کی قبور پر نہ تو مشرکین کی طرح جانور ذبح کرتے ہیں نہ ان کی عبادت کرتے ہیں نہ وہاں بت رکھے ہوئے ہیں نہ ان کے مجسمے اور نہ انہیں سجدہ کیا جاتا ہے اور نہ اُن سے حاجتیں مانگتے ہیں۔ بلکہ فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ان کی حاضری کا مقصد صرف اور صرف اصلاحِ احوال اور تذکیرِ آخرت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ان سے حصول برکت اور ان کے توسل سے بارگاہ الہٰی میں دعا کی جاتی ہے سو ان میں کوئی عمل بھی نہ تو شرک کے زمرے میں آتا ہے، نہ بدعت کے، اور نہ ہی ممانعت و کراہت کے، یہ سب امور یا تو سنت ہیں، یا مستحسن اور جائز ہیں۔

Thursday 26 April 2018

Riyadh Yani Najad Mein Khawarij ka Zahir hona or Un Mein Dajjal ka Nikalna ( Hadiths )

ریاض یعنی نجد میں خوارج کا ظاہر ہونا اور ان میں دجال کا نکلنا

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ کَانَ قَائِمًا عِنْدَ بِابِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنهما فَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَقَالَ : الْفِتْنَةُ هَاهُنَا حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الخمس، باب : ما جاء في بيوت أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم وما نسب من البيوت إليهن، 3 / 1130، الرقم : 2937، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم : 4679، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 1 / 245، الرقم : 42.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابِ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘


عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ عِنْدَ بَابِ حَفْصَةَ فَقَالَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ : اَلْفِتْنَةُ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : الفتنة من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابِ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ اپنے دستِ اقدس سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (کلمات) دو یا تین مرتبہ ادا فرمائے۔‘‘


عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا مَرَّتَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ : وَ فِي مَشْرِقِنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مِنْ هُنَالِکَ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَلَهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 90، الرقم : 5642، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 249، الرقم : 1889، والروياني في المسند، 2 / 421، الرقم : 1433، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 57، وقال : رجال أحمد رجال عبدالرحمن بن عطاء وهو ثقة.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا : تو ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اور ہمارے مشرق میں (بھی برکت ہو) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ نکلے گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہو گا۔‘‘


عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲَ صلي الله عليه وآله وسلم عِنْدَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها يَدْعُوْ : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْمَشْرِقَ فَقَالَ : مِنْ هَاهُنَا يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَالزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَمِنْ هَاهُنَا الْفَدَّادُوْنَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 252، الرقم : 7421، وأبونعيم في المسند المستخرج، 4 / 44، الرقم : 3183.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے قریب دعا کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : ’’اے اللہ! ہمارے مد اور ہمارے صاع (مد اور صاع غلہ ماپنے کے دو آلے ہیں) میں برکت ڈال اور ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق رخ ہو گئے اور فرمایا : یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور (یہیں سے) زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے اور یہیں سے سخت گفتار، تکبر کے ساتھ چلنے والے (لوگ ظاہر) ہوں گے۔‘‘


عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهم قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّي عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَي عَشْرَةِ مَرَّاتٍ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّي يَخْرُجُ الدَّجَّالَ فِي بَقِيَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 198، الرقم : 6871، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8497، وابن حماد في الفتن، 2 / 532، وابن راشد في الجامع، 11 / 377، والآجري في الشريعة، 1 / 113، الرقم : 260، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 228.

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی (صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا اور فرمایا : ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں ظاہر ہو گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔‘‘









Tuesday 24 April 2018

Khawarij Fitna Phelaty hein Unsy Bacho ( Quran ) Surah Al Imran Ayat 118 ki Tafaseer

خوارج فتنہ پرور اور کینہ ور ہیں

سورۃ آل عمران میں فرمان باری تعاليٰ ہے :

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا يَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًاط وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ج وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَکْبَرُط قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَo

آل عمرآن، 3 : 118

’’اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لیے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہوo‘‘

1۔ امام ابن ابی حاتم رازی نے آیت مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے :

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، أَنَّهُ قَالَ : هُمُ الْخَوَارِجُ.

ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 3 : 742

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان (فتنہ انگیزی کرنے والوں) سے مراد ’’خوارج‘‘ ہیں۔‘‘

2۔ امام قرطبی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد خوارج ہیں۔ وہ تمہارے درمیان فساد پھیلانے سے باز نہیں آئیں گے۔ اگر دہشت گردی نہ کر سکے، تو مکر و فریب اور دھوکہ بازی ترک نہیں کریں گے۔

قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 4 : 179

Khawarij Murtad Hain ( Quran ) Surah Imran Ayat 106 ki Tafaseer

خوارج سیاہ رو اور مرتد ہیں

سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے :

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo

آل عمران، 3 : 106

’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا : ) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لوo‘‘

1۔ امام ابنِ ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے آیتِ مذکورہ کے ذیل میں حدیث روایت کی ہے :

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.

ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘

2۔ حافظ ابن کثیر نے بھی آیت مذکورہ کے تحت اس سے خوارج ہی مراد لیے ہیں.

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 347

یہ قول ابن مردویہ نے حضرت ابو غالب اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے مرفوعاً روایت کیا ہے، امام احمد نے اسے اپنی مسند میں، امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں ابو غالب کے طریق سے روایت کیا ہے۔

3۔ امام سیوطی کا بھی یہی موقف ہے۔ انہوں نے بھی اس آیت میں مذکور لوگوں سے ’’خوارج‘‘ ہی مراد لئے ہیں۔

سيوطی، الدر المنثور، 2 : 148

Monday 23 April 2018

Allah ki Ata Say Nabi Momineen or Firshtay Madad Krtay Hein ( Quran )

 “Aye Imaan Waalo Allah k Deen K Madadgaar Raho Jaise Isaa Maryam K Bete Ne Hawariyo Se Kaha Tha Kon Hai Jo ALLAH ki Taraf Hoke Meri Madad Kare Hawari Bole Hum Khuda K Deen K Madadgaar Hai To Bani Israel K Ek Giroh Ne Imaan Laaya aur ek Giroh Ne Kufr Kiya To Humne Imaan Waalo Ko Unke Dushmano Par Madad Di TO Gaalib Hogaye ”
[Surah Saff Ayat 14]


"Aye Imaan Waalo Agar Tum Khuda k Deen Ki Madad Karoge Allah Tumhari Madad Karega” 
[Muhammad Ayat 07]


“Phir Tashrif Laaye Tumhare Pass Wo Rasool To Tum Zaroor Zaroor Unpar Imaan Laana Aur Zaroor Zaroor Unki Madad Karna” 
[Imran Ayat 81]


“Aur Mere Liye Mere Ghar Waalo Me Se Ek Wazir Karde - 29
Woh Kaun Mera Bhai Haroon - 30
Usse Meri Kamar Mazboot Kar - 31”

[Surah Taha Ayat 29 - 30 -31]


“Jab Tum Apne Rab Se Faryaad Karte The To Usne Tumhari Sunli Ki Main Tumhe Madad Dene Waala Hoon Hazaro Farishto Ki Kaatar Se”
[Anfaal Ayat 09]


“Beshak Allah Tumhara Madadghar Hai aur Sabse Badkar Madadghar Hai”
[Al Imran Ayat 150]
“Yeh Isliye k Musalmano Ka Madadghar Allah Hai Aur Kaafiro ka Koi Madadghar Nahi ”
[Muhammad Ayat 11]
“Beshak Allah Unka Madadghar Hai Aur Jibril ( Alaihisalam) Aur Naik Momineen Madadghar Hain”
[Tehreem Ayat 04]

Sunday 22 April 2018

Kharijiu Ki Alamat ( Hadiths )

خارجیوں کی علامات۔
روایات میں ان فتنہ پرور خارجیوں کی متعدد معروف علامات اور واضح نشانیاں بیان فرمائی گئی ہیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :

1. أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066

’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے۔‘‘

2. سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066

’’دماغی طور پر ناپختہ (brain washed) ہوں گے۔‘‘

3. کَثُّ اللِّحْيَةِ.

1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 : 742، رقم : 1064

’’(دین کے ظاہر پر عمل میں غلو سے کام لیں گے اور) گھنی ڈاڑھی رکھیں گے۔‘‘

4. مُشَمَّرُ الْإِزَارِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب بعث علی ابن أبی طالب و خالد بن الوليد، إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 : 742، رقم : 1064

’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے۔‘‘

5. يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ.

بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قراء ة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حناجرهم، 6 : 2748، رقم : 7123

’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے۔‘‘

6. لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.

نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 : 119، رقم : 4103

’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘

یعنی یہ خوارج دجّال کی آمد تک تاریخ کے ہر دور میں وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔

7. لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066

’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘

یعنی ان کا ایمان دکھلاوا اور نعرہ ہوگا، مگر اس کے اوصاف ان کے فکر و نظریہ اور کردار میں دکھائی نہیں دیں گے۔

8. يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ.

1. أبويعلی، المسند، 1 : 90، رقم : 90
2. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673

’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے۔‘‘

9. يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 : 2540، رقم : 6534
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 : 744، رقم : 1064

’’تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا۔‘‘

10. لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066

’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘

یعنی نماز کا کوئی اثر ان کے اخلاق و کردار پر نہیں ہوگا۔

11. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066

’’وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی۔‘‘

12. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ.

1. بخاری الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2540، رقم : 6532
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وقتالهم، 2 : 743، رقم : 1064

’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘

یعنی اس کا کوئی اثر ان کے دل پر نہیں ہوگا۔

13. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066

’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔‘‘

14. يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ.

أبو داود، السن، کتاب السنة، باب في قتل الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765

’’وہ (بذریعہ طاقت) لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا۔‘‘

15. يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066

’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے۔‘‘

یعنی دینی نعرے (slogans) بلند کریں گے اور اسلامی مطالبے کریں گے۔

(1) جیسے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں خوارج نے لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلّٰهِ کا پُر کشش نعرہ لگایا تھا۔

16. يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا.

طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 186، الرقم : 6142

’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی۔‘‘

17. يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ.

أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765

’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘

18. هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 : 750، الرقم : 1067

’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘

19. يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ.

1. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 455، رقم : 934
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.

’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے۔‘‘

20. يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 : 1321، رقم : 3414
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 : 744، رقم : 1064

’’وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘

21. يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : تعرج الملائکة والروح إليه، 6 : 2702، رقم : 6995
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 : 741، رقم : 1064

’’وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔‘‘

22. يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066

’’وہ ناحق خون بہائیں گے۔‘‘

یعنی مسلم اور غیر مسلم افراد کا قتل جائز سمجھیں گے۔

23. يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ. (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها)

حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657

’’وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔)

24. يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه).

1. طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 3 : 181
2. عسقلاني، فتح الباری، 12 : 300

’’وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے۔‘‘ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ)

25. يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه)

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 749، الرقم : 1066

’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (قولِ علی رضی اللہ عنہ)

26. ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه)

بخاری، الصحيح، کتاب، استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539

’’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔‘‘ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)

27. يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066

’’وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

28. اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ.

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066

’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘

29. خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ.

ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000

’’وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے۔‘‘

30. شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ.

ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000

’’وہ آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہوں گے۔‘‘

یعنی جو دہشت گرد خوارج فوجی سپاہیوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے تو وہ بدترین مقتول ہوں گے اور انہیں مارنے والے جوان بہترین غازی ہوں گے۔

31. إِنَّهُمْ کِلَابُ النَّارِ.

ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000

’’یہ (دہشت گرد خوارج) جہنم کے کتے ہوں گے۔‘‘

32۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو دائمی جہنمی اور اس کا خون اور مال حلال قرار دیں گے۔

33۔ ظالم اور فاسق حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج کو فرض قرار دیں گے۔

1. عبد القاهر بغدادی، الفرق بين الفرق : 73
2. ابن تيميه، مجموع فتاوی، 13 : 31

34۔ خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کسی مخصوص علاقے کو گھیر کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے مرکز بنا لیں گے، جیسے کہ انہوں نے خلافت علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ میں حروراء کو اپنا مرکز بنا لیا تھا یعنی وہ اپنے لئے محفوظ پناہ گاہیں بنائیں گے۔

35۔ خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ حق کے ساتھ مذاکرات کو ناپسند کریں گے، جس طرح انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تحکیم کو مسترد کر دیا تھا۔

Featured Documents

Customization

View more

Tips and Tricks

View more

Image Documents

View more

Tutorials

View more

Legal Documents

View more

Getting Started

View more