’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس (اور ایک روایت میں ہے کہ اسلام کی مٹھاس) کو پالے گا : اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، جس شخص سے بھی اسے محبت ہو وہ محض اللہ عزوجل کی وجہ سے ہو، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالتِ) کفر میں لوٹنے کو وہ اسی طرح ناپسند کرتا جیسے وہ خود کو آگ میں پھینکا جانا ناپسند کرتا ہو۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : حلاوةِ الإِيمانِ، 1 / 14، الرقم : 16، وفي کتاب : الإيمان، باب : مَنْ کَرِهَ أَن يعودَ في الکفرِ کَمَا يَکْرَهُ أَن يُلقَي في النَّارِ مِنَ الإِيْمَانِ، 1 / 16، الرقم : 21، وفي کتاب : الإکراهِ، باب : مَنِ اخْتَارَ الضَّربَ وَالقَتلَ وَالهَوَانَ عَلَي الکُفْرِ، 6 / 2546، وفي کتاب : الأدب، باب : الحُبِّ في اللّٰهِ، 5 / 2246، الرقم : 5694، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان، 1 / 66، الرقم : 43، والترمذي في السنن، کتاب : الإيمان عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (10)، والنسائي في السنن، کتاب : الإيمان وشرائعه، باب : طعم الإيمان، 8 / 94، الرقم : 4987، وفي باب : حلاوة الإيمان، 8 / 96، الرقم : 4988، وفي کتاب : الإيمان وشرائعه، باب : حلاوة الإسلام، 8 / 97، الرقم : 4989، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : الصَّبْرِ عَلَي الْبَلَاءِ، 2 / 13338، الرقم : 4033، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 103، الرقم : 12021، وأبويعلي في المسند، 5 / 194، الرقم : 2813، وابن حبان في الصحيح، 1 / 474، الرقم : 238، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 164، الرقم : 30360.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الإِيْمَانِ، باب : حُبُّ الرَّسُوْلِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ الإِيْمَانِ، 1 / 14، الرقم : 14.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : وجوب محبة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أکثر من الأهل والولد والوالد والناس أجمعين وإطلاق عدم الإيمان علي من لم يحبه هذه المحبة، 1 / 67، الرقم : 44، وأحمد بن حنبل مثله في المسند، 5 / 162، الرقم : 21480، وأبويعلي في المسند، 7 / 6، الرقم : 3895، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 129، الرقم : 1375، وابن حيان في العظمة، 5 / 1780، الرقم : 2824، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 53، الرقم : 6169، وابن منصور في کتاب السنن، 2 / 204، الرقم : 2443.
’’حضرت عبد اللہ بن ھِشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأيْمَانِ وَالنُّذُوْرِ، باب : کَيْفَ کَانَتْ يَمِيْنُ النَّبِيِ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 / 2445، الرقم : 6257.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا پس اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ہے۔‘‘
أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : الدليل علي زيادة الإيمان ونقصانه 4 / 220، الرقم : 4681، والحاکم في المستدرک، 2 / 178 الرقم : 2694، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 41، الرقم : 9083.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے عفیر نامی دراز گوش پر سوار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے وہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں یہ خوشخبری لوگوں تک نہ پہنچا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ انہیں یہ خوشخبری مت دو کہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے)۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد، باب : اسم الفَرَسِ والحمار، 3 / 1049، الرقم : 2701، وفي کتاب : اللباس، باب : إرداف الرّجُلِ خلف الرجلِ، 5 / 2224، الرقم : 5622، وفي کتاب : الاستئذان، باب : مَن أجاب بَلبّيک وسعديک، 5 / 2312، الرقم : 5912، وفي کتاب : الرقاق، باب : من جاهد نفسه في طاعة اﷲ، 5 / 2384، الرقم : 6135، وفي کتاب : التوحيد، باب : ماجاء في دُعَاءِ النَّبِيِ صلي الله عليه وآله وسلم أمَّتَهُ إلي توحيد اﷲ تبارک وتعالي، 6 / 2685، الرقم : 2938، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : الدليل علي أن من مات علي التوحيد دخل الجنة، 1 / 58. 59، الرقم : 30، والترمذي في السنن، کتاب : الإيمان عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في افتراق هذه الأمة، 5 / 26، الرقم : 2643، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ما يرجي من رحمة اﷲ يوم القيامة، 2 / 1435، الرقم : 4296، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 443، الرقم : 5877.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت معاذ سے) فرمایا : اے معاذ بن جبل! حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : لبیک یا رسول اللہ و سعدیک! حضرت انس کہتے ہیں کہ تین مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو مخاطب کیا اور ہر مرتبہ حضرت معاذ نے یہی الفاظ دہرائے۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی سچے دل سے اس بات کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس بات سے لوگوں کو مطلع نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں! اگر تم انہیں یہ بات بتا دو گے تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے) چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اپنے انتقال کے وقت بیان کی تاکہ حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہوں۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : العلم، باب : مَن خصَّ بالعلم قوما دون قومٍ، کراهيةَ أن لاَ يَفْهَمُوا، 1 / 59، الرقم : 128، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : الدليل علي أن من مات علي التوحيد دخل الجنة قطعا، 1 / 61، الرقم : 32، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 147، الرقم : 125، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 841، الرقم : 1564، وابن منده في الإيمان، 1 / 234، الرقم : 93، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 266، الرقم : 2344.
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے حارث! تو نے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے سچے مومن کی طرح (یعنی حقیقت ایمان کے ساتھ) صبح کی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں (دیدارِ الٰہی کی طلب میں) پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! تو نے (حقیقتِ ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا۔ یہ کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
’’اور یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ مروی ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے حقیقتِ ایمان کو پالیا، پس اس حالت کو قائم رکھنا، تو وہ مومن ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے نور سے بھر دیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 266، الرقم : 3367، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 362، الرقم : 10590 - 10591، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 170، الرقم :، 30423، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 165، الرقم : 445، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 57، وقال : رواه البزار، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 36.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 170، الرقم : 30425، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 363، الرقم : 10592، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 355، الرقم : 973، وابن المبارک في الزهد، 1 / 106، الرقم : 314، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 57، وقال الهيثمي : رواه البزار.
0 comments:
Post a Comment