’’خوارج کا نعرہ عامۃ الناس کو حق محسوس ہوگا‘‘
خوارج عامۃ الناس کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لئے بظاہر اسلام کا نعرہ بلند کریں گے لیکن ان کی نیت بری ہوگی۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کی بظاہر اسلام پر مبنی باتوں اور ظاہری وضع قطع اور دین داری کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا جائے کیونکہ ان کا یہ مذہبی نعرہ اور عبادت گذاری در حقیقت امت مسلمہ میں مغالطہ، اِبہام اور افتراق و انتشار پیدا
خوارج عامۃ الناس کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لئے بظاہر اسلام کا نعرہ بلند کریں گے لیکن ان کی نیت بری ہوگی۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کی بظاہر اسلام پر مبنی باتوں اور ظاہری وضع قطع اور دین داری کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا جائے کیونکہ ان کا یہ مذہبی نعرہ اور عبادت گذاری در حقیقت امت مسلمہ میں مغالطہ، اِبہام اور افتراق و انتشار پیدا
کرنے کے لئے ہوگا
1۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :
يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066
’’وہ لوگوں کے سامنے (دھوکہ دہی کے لئے) ’’اسلامی منشور‘‘ پیش کریں گے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’یقولون من قول خیر البریۃ‘‘ کی شرح میں
لکھتے ہیں :
أی : من القرآن، وکان أوّل کلمة خرجوا بها قولهم : لا حکم إلا ﷲ، وانتزعوها من القرآن، وحملوها علی غير محملها.
عسقلانی، فتح الباری، 6 : 619
’’(اِن کلمات کا مطلب ہے کہ) خوارج اپنے موقف کی تائید میں قرآن پیش کریں گے۔ اِسی لیے سب سے پہلا نعرہ جو اُن کی زبانوں سے بلند ہوا اس کے الفاظ یہ تھے : اﷲ کے علاوہ کسی کا حکم (قبول) نہیں (یعنی انہوں نے اپنا منشور اسلامی لبادے میں پیش کیا تھا)۔ انہوں نے یہ جملہ قرآن حکیم سے اخذ کیا لیکن اس کا اطلاق اس سے ہٹ کر کیا۔‘‘
علامہ عبد الرحمن مبارک پوری نے جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔
مبارک پوری، تحفة الأحوذی، 6 : 354
2۔ امام مسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ، قَالُوا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ. قَالَ عَلِيٌّ : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَصَفَ نَاسًا إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوْزُ هَذَا مِنْهُمْ وَأَشَارَ إِلَی حَلْقِهِ، مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اﷲِ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَسْوَدُ إِحْدَی يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْیٍ، فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ قَالَ : انْظُرُوا، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُوْا شَيْئًا. فَقَالَ : ارْجِعُوا فَوَاﷲِ، مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَجَدُوْهُ فِي خَرِبَةٍ فَأَتَوْا بِهِ حَتَّی
وَضَعُوْهُ بَيْنَ يَدَيْهِ. قَالَ عُبَيْدُ اﷲِ : وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِکَ مِنْ أَمْرِهِمْ وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066
2. نسائي، السنن الکبری، 5 : 160، رقم : 8562
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939
’’جس وقت حروریہ نے مسلح جد و جہد کا آغاز کیا اُس سے قبل وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ : نے فرمایا : بات تو حق ہے مگر اس سے مقصود باطل ہے۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کے متعلق فرمایا تھا جن کی نشانیاں میں اِن لوگوں میں بخوبی دیکھ رہا ہوں، وہ اپنی زبانوں سے دین حق کی بات کہتے ہیں اور حق اس سے (یعنی ان کے حلق سے) متجاوز نہیں ہوتا۔ آپ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا اور کہا : یہ لوگ اللہ کی مخلوق میں مبغوض ترین ہیں۔ ان میں سے ایک شخص سیاہ رنگ کا ہے جس کا ہاتھ بکری کے تھن یا عورت کے پستان کے سر کی طرح ہے۔ جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انہیں قتل کر چکے تو فرمایا : اس آدمی کی تلاش کرو، انہوں نے اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا، فرمایا : اس کو پھر جا کر تلاش کرو، بخدا نہ میں نے جھوٹ بولا ہے نہ مجھے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے) جھوٹ بتایا گیا ہے، یہ بات انہوں نے دو یا تین بار کہی، حتيٰ کہ لوگوں نے اسے بالآخر ایک کھنڈر میں ڈھونڈ لیا اور اس کی لاش لا کر حضرت علی کے سامنے رکھ دی۔ عبید اللہ کہتے ہیں : میں اس سارے معاملہ کا عینی گواہ ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ان خوارج کے بارے میں ہی تھا۔‘‘
امام یحیيٰ بن شرف نووی شرح صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول’’کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
معناه أن الکلمة أصلها صدق، قال اﷲ تعالی : ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّاِﷲِ﴾(1) لکنهم أرادوا بها الإنکار علی علي رضی الله عنه في تحکيمه.(2)
(1) الأنعام، 6 : 57
(2) نووی، شرح صحيح مسلم، 7 : 173، 174
’’اس کا معنی یہ ہے کہ اصلاً یہ کلمہ سچا ہے، اﷲ تعاليٰ کا فرمان ہے : (حکم صرف اللہ ہی کا ہے)۔ لیکن انہوں نے اس نعرہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم کو رد کرنے کے لئے استعمال کیا (یہ باطل ہے)۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی ’’فتح الملھم (5 : 169)‘‘ میں مذکورہ کلمات کی یہی شرح بیان کی ہے۔
ایک دوسری روایت میں طارق بن زیاد بیان کرتے ہیں :
خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه إِلَی الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ : انْظُرُوْا فَإِنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَومٌ
يَتَکَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لاَ يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ.
1. نسائي، السنن الکبری، 5 : 161، رقم : 8566
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 107، رقم : 848
’’ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا خاتمہ کیا پھر فرمایا : دیکھو بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ کلمۂِ حق ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘
ان احادیثِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ خوارج اپنے انتہا پسندانہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے نعرہء حق لگاتے ہیں لیکن در حقیقت اس کے پیچھے ان کے مذموم مقاصد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بے نقاب کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ ان کے اچھے نعروں کی وجہ سے گمراہ نہ ہوں۔
0 comments:
Post a Comment