عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَا سَمِعْتُ عُمَرَ لِشَيءٍ قَطُّ يَقُوْلُ : إِنِّي لَأَظُنُّهُ کَذَا إِلَّا کَانَ کَمَا يَظُنُّ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : إسلامُ عمرَ بنَ الخطابِ رضي الله عنه، 3 / 1403، الرقم : 3653، والحاکم في المستدرک، 3 / 94، الرقم : 4503، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 119، الرقم : 65، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 568، الرقم : 1510.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھماسے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسی بات نہیںسنی جس کے متعلق انہوں نے فرمایا ہو کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہے اور وہ ان کے خیال کے مطابق نہ نکلی ہو۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَقَدْکَانَ فِيْمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ نَاسٌ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِنْ يَکُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عَمَرُ أَي مُلْهَمُوْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ رِوَايَةِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها.
وقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! کَيْفَ مُحَدَّثٌ؟ قَالَ : تَتَکَلَّمُ الْمَلَائِکَةُ عَلَي لِسَانِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب عمر بنَ الخطَّابِ رضي الله عنه، 3 / 1349، الرقم : 3486، وفي کتاب : الأنبياء، باب : أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِيْمِ : (الکهف : 9)، 3 / 1279، الرقم : 3282، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عمر رضي الله عنه، 4 / 1864، الرقم : 2398، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 5 / 622، الرقم : 3693، وابن حبان في الصحيح، 15 / 317، الرقم : 6894، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم : 4499، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 55، الرقم : 24330، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 48، الرقم : 5734، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 18، الرقم : 6726، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 278، الرقم : 4839، وابن راهويه في المسند، 2 / 479، الرقم : 1058، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 138، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 564، الرقم : 1504، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 69، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 315، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 50، والمبارکفوري في تحفة الأهوذي، 10 / 125.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے باتیں القاء کی جاتی تھیں (یعنی انہیں الہام ہوتا تھا) اور میری امت میں اگر کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہے۔‘‘
’’اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بیان کیا کہ صحابہ کرام نے پوچھا : (یا رسول اﷲ!) اس الہام کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَي شَيَاطِيْنِ الإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ.
وفي رواية : قَالَ : إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ (أَوْ لَيَفْرَقُ) مِنْکَ يَا عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 5 / 621، الرقم : 3690، 3691، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 309، الرقم : 5957، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 353، الرقم : 23039، وفي فضائل الصحابة، 1 / 333، الرقم : 480، وابن حبان في الصحيح، 10 / 231، الرقم : 4386، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 77.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنات و انسانوں کے شیاطین کو دیکھتا ہوں کہ وہ عمر کے خوف سے بھاگ گئے ہیں۔
اور ایک روایت میں فرمایا : اے عمر! تم سے شیطان ڈرتا ہے۔‘‘
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَي سَارِيَةَ، فَبَيْنَمَا عُمَرُ يَخْطُبُ فَجَعَلَ يَصِيْحُ : يَاسَارِيُّ الْجَبَلَ. فَقَدِمَ رَسُوْلٌ مِنَ الْجَيْشِ فَقَالَ : يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ! لَقِيْنَا عَدُوَّنَا فَهَزَمُوْنَا فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيْحُ : يَا سَارِيُّ الْجَبَلَ. فَأَسْنَدْنَا ظُهُوْرَنَا إِلَي الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ اﷲُ تَعَالَي. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 219، الرقم : 355، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 370، وفي الإعتقاد، 1 / 314، وأبونعيم في دلائل النبوة، 3 / 210 - 211، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 410، الرقم : 5954، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 87.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا سالار ایک شخص کو مقرر کیا جس کا نام ساریہ تھا۔ ایک دن آپ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک دوران خطبہ آپ نے پکارا : اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو۔ (جنگ کے بعد) لشکر سے ایک قاصد آیا اور کہنے لگا : اے امیر المومنین! ہم دشمن سے لڑ رہے تھے اور قریب تھا کہ وہ ہمیں شکست دے دے پھر اچانک کسی پکارنے والے نے پکارا : اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو۔ ہم نے اپنی پیٹھیں پہاڑ کی طرف کرلیں تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں شکست (اور ہمیں فتح عطا) کی۔‘‘
عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَمَّنْ حَدَّثَهُ قَالَ : لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ أَتَي أَهْلُهَا إِلَي عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنه حِيْنَ دَخَلَ بُوْنَةَ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ. فَقَالُوْا : أَيُّهَا الْأَمِيْرُ إِنَّ لِنِيْلِنَا هَذَا سُنَّةً لاَ يَجْرِي إِلاَّ بِهَا. فَقَالَ : وَمَا ذَاکَ؟ قَالُوْا : إِذَا کَانَ ثَنَتَا عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَوْنَ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلَي جَارِيَةٍ بِکْرٍ مِنْ أَبَوَيْهَا فَأَرَضَيْنَا أَبَوَيْهَا وَجَعَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ وَالثِّيَابِ أَفْضَلُ مَا يَکُوْنُ ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا فِي هَذَا النِّيْلِ. فَقَالَ لَهُمْ عَمْرٌو رضي الله عنه : إِنَّ هَذَا مِمَّا لاَ يَکُوْنُ فِي الإِسْلاَمِ إِنَّ الإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ. قَالَ : فَأَقَامُوْا بُوْنَةَ وَأَبِيْبَ وَمَسْرَي وَالنِّيْلُ لَا يَجْرِي قَلِيْلًا وَلَا کَثِيْرًا حَتَّي هَمُّوْا بِالْجِلَاءِ فَلَمَّا رَأَي ذَلِکَ عَمْرٌوصکَتَبَ بِذَلِکَ إِلَي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، فَکَتَبَ إِنَّکَ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِي فَعَلْتَ وَإِنَّ الإِسْلَامَ يَعْتَدِمُ مَا قَبْلَهُ وَإِنِي قَدْ بَعَثْتُ إِلَيْکَ بِبِطَاقَةٍ دَاخِلَ کِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهَا فِي النِّيْلِ. فَلَمَّا قَدِمَ کِتَابُ عُمَرَ رضي الله عنه إِلَي عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنه، وأَخَذَ الْبِطَاقَةَ فَفَتَحَهَا فَإِذَا فِيْهَا : مِنْ عَبْدِ اﷲِ عُمَرَ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي نِيْلِ مِصْرَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنْ کُنْتَ إِنَّمَا تَجْرِي مِنْ قِبَلِکَ فَلَا تَجْرِ وَإِنْ کَانَ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَهَارُ هُوَ الَّذِي يُجْرِيْکَ فَنَسْأَلَ اﷲَ الْوَاحِدَ الْقَهَارَ أَنْ يُجْرِيَکَ. قَالَ : فَأَلْقَي الْبِطَاقَةَ فِي النِّيْلِ فَلَمَّا أَلْقَي الْبِطَاقَةَ أَصْبَحُوْا يَوْمَ السَّبْتِ وَقَدْ أَجْرَاهُ اﷲُ تَعَالَي سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَقَطَعَ اﷲُ تَعَالَي تِلْکَ السُّنَّةَ عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَي الْيَوْمِ.
رَوَاهُ اللَّالْکَائِيُّ وَالْقُرْطَبِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَأَبُوْالشَّيْخِ فِي کِتَابِ الْعَظَمَةِ.
أخرجه اللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 119، الرقم : 66، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 103، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 465، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 88، والحموي في معجم البلدان، 5 / 335.
’’حضرت قیس بن حجاج روایت کرتے ہیں اس سے جس نے انہیں بتایا کہ مصر فتح ہونے کے بعد اہل مصر (گورنر مصر) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب عجمی مہینہ بونہ شروع ہوا۔ اور عرض کیا : اے امیر! ہمارے اس دریائے نیل کا ایک معمول ہے جس کی تعمیل کے بغیر اس میں روانی نہیں آتی۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بتاؤ تو وہ کیا معمول ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جب اس مہینہ کی بارہ تاریخ آتی ہے تو ہم ایک کنواری لڑکی اس کے والدین کی رضا مندی سے حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے عمدہ سے عمدہ زیورات اور کپڑے پہنا کر اس دریائے نیل کی نذر کر دیتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ سب کچھ اسلام میں نہیں ہوگا۔ اسلام زمانہ جاہلیت کی تمام (بے ہودہ) رسوم کو ختم کرتا ہے۔ (راوی نے) کہا : اہل مصر بونہ، ابیب اور مَسرِی تین ماہ تک اس حکم پر قائم رہے۔ نیل کی روانی رُکی رہی پانی کا قطرہ نہ رہا۔ دریائے نیل کی روانی کو بند دیکھ کر لوگوں نے ترک وطن کا ارادہ کیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تمام حالات کی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اے عمرو بن عاص! تم نے جو کچھ کیا درست کیا۔ اسلام نے سابقہ (بے ہودہ) رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ میں اپنے اس خط کے اندر ایک رقعہ بھیج رہا ہوں۔ اسے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ پس جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خط حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو انہوں نے اس خط کو کھولا تو اس میں درج ذیل عبارت تھی۔’’اﷲ تعالیٰ کے بندے امیرالمومنین عمر کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام! حمدو صلاۃ کے بعد (اے دریا) اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہرگز نہ بہہ! اور اگر اﷲ واحدو قہار ہی تجھے رواں کرتا ہے تو ہم خداوندِ واحد و قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا۔ جب رقعہ ڈالا ہفتہ کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ ایک رات میں اﷲ تعالیٰ نے سولہ ہاتھ (پہلے سے بھی) اونچا پانی دریائے نیل میں جاری فرما کر اہل مصر سے اسی دن سے آج تک اس قدیم ظالمانہ رسم کو ہمیشہ کے لیے ختم فرما دیا۔‘‘
0 comments:
Post a Comment