مطالعہء قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہّ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بالکل منکر نہیں تھے بسا اوقات وہ اللہ تعالیٰ کو ایک اور سب سے بالا و برتر ہستی مانتے تھے مگر ان کا شرک توحید فی الالوہیت کے باب میں تھا اسی بناء پر ان کے ہاں عقیدہِ توحید کے باب میں خرابی، توحیدِ ربوبیت کی نسبت توحیدِ الوہیت میں زیادہ تھی۔ قبل از اسلام یہود اور دیگر مشرکین عرب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کی طرح اپنے بتوں کو مختلف قبائل سے منسوب کر کے اس کی پوجا کرتے تھے۔ کچھ لوگ تو قبروں کو براہ راست سجدہ کرتے اور بعض قبائل ان قبروں کے اوپر اس مدفون کا بت یا ان کی تصاویر بنا کر رکھ لیتے اور اس کو سجدہ کرتے تھے۔ سجدہ کرتے ہوئے ان کا تصور یہی ہوتا تھا کہ یہ بت اور مدفون شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے شفیع ہیں۔ ان کا یہی عمل در اصل شرک فی الاُلوہیت تھا۔
امام بخاری نے ان کے اس مشرکانہ عمل کو اس طرح روایت کیا ہے۔
1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کے متعلق فرمایا :
لَعَنَ اﷲُ اليَهُوْدَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.
’ اﷲ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجود بنا لیا تھا (یعنی وہ براہِ راست قبروں کی عبادت کرتے تھے)۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1 : 165
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1 : 376، رقم : 529
2۔ اس طرح ایک اور روایت میں ان کے اس مشرکانہ رجحان اور وطیرہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید واضح فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
أَنَّ أُمَّ حَبِيْبَةَ وَ أُمَّ سَلَمَةَ ذَکَرَتَا کَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَکَرَتَا لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالََ : إِنَّ أُولَئِکَ إِذَا کَانَ فِيْهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَی قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْکَ الصُّوَرَ فَأُولَئِکَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اﷲِ يَوْمَ القِيَامَةِ.
’’حضرت اُمِ حبیبہ اور حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہما نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا جس میں بت اور مورتیاں تھیں، پس انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے اور اس میں اس کی مورتی بنا لیتے۔ وہ لوگ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الصلوۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجدا، 1 : 165، رقم : 417
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور و اتخاذ الصور، 1 : 375، رقم : 528
3۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے :
صَارَتِ الأوْثَانُ الَّتِي کَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي العَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وَدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَ أَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَ أَمَّا يَغُوثُ کَانَتْ لِمُرَادٍ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ، وَ أَمَّا يَعُوقَُ فَکَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَ أَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِی الکَلاَعِ، أَسْمَائُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِن قَوْمِ نُوْحٍ، فَلَمَّا هَلَکُوْا أَوحَی الشَّيْطَانُ إِلَی قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِهِمُ الَّتِي کَانُوْا يَجْلِسُوْنَ أَنْصَابًا وَ سَمُّوهَا بِأَسْمَائِ هِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّی إِذَا هَلَکَ أُولٰئِکَ وَ تَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ.
’’جو بت حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے وہی بعد میں اہل عرب نے اپنے معبود بنا لئے۔ وَد بنی کلب کا بت تھا جو دومۃ الجندل کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ سواع بنی ہذیل کا بت تھا، یغوث بنی مراد کا بت تھا، پھر یہی بنی غطیف کا بھی الٰہ بن گیا جو سبا کے پاس جوف میں تھا۔ یعوق قبیلہ ہمدان کا اور نسر ذی الکلاع کی آلِ حمیر کا بت تھا۔ یہ حضرت نوح کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام ہیں جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اﷲ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں کے نام بھی ان صالحین کے نام پر ہی رکھ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان کی پوجا و پرستش ہونے لگ گئی۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ودًا ولا سواعًا ولا یغوث ولا یعوق، 4 : 1873، رقم : 4636
مندرجہ بالا تینوں روایات سے درجِ ذیل امور واضح ہوئے :
مشرکین نے پہلے زمانوں کے انبیاء و صالحین کی قبور کو ہی مسجود یا مسجود الیہ بنا لیا تھا۔ اور وہ ان کی عبادت کرتے تھے۔ یہ مشرکینِ یہود ونصاریٰ کا معمول تھا، کہ وہ ان قبروں کو سجدہ بھی کرتے تھے، اپنی نمازوں میں انہیں قبلہِ توجہ بھی بناتے تھے اور انہیں اپنا معبود بھی تصور کرتے تھے۔ ان تینوں امور کی تصریح حدیث البخاری : 427 کی شرح میں امام عسقلانی اور امام عینی نے کی ہے۔ اور اسے سب نے امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
عیسائی مشرکین نے اپنے کنیساؤں میں بھی (جوکہ انکی عبادت گاہیں تھیں) صالحین سے منسوب بت رکھے ہوئے تھے، جنکی وہ عبادت کرتے اور تعظیم بھی کرتے مستزاد یہ کہ ان کی قبروں اور بتوں کو اپنا معبود (آلہہ) تصور کرتے تھے۔
مشرکینِ مکہ کے مختلف قبائل نے بھی کعبۃ اللہ کے اردگرد اور دیگر مقامات پر انہیں بتوں کے نام پر ’’تھان‘‘ (چبوترے) بنا رکھے تھے۔ ان پر بسا اوقات انہیں جھوٹے خداؤں (آلہہ) کے بت بھی نصب ہوتے اور وہ انہی چبوتروں پر ان بتوں کے لئے جانور بھی ان کی عبادت کی نیت سے ذبح کرتے تھے، جسے قرآن مجید میں ’’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘‘ کہا گیا ہے۔
وہ مشرکین، ذبح کے بعد انہی چبوتروں پر ان جانوروں کے خون بھی ان بتوں کی عبادت اور تقرّب کی نیت سے مَل دیتے تھے۔
وہ اس خود ساختہ مشرکانہ عبادت کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور شفاعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
ان تمام مشرکانہ امور کو قرآن و حدیث کے ذریعے رد کر دیا گیا۔
مذکورہ بالا حدیث کے ان الفاظ’’اتخذوا قبور انبياء هم مساجدا‘‘سے تمام محدثین اور شارحین نے بلا اختلاف یہ مراد لیا ہے :
مفاد الحديث منع إتخاذِ القبر مسجداً، ومدلول الترجمة إتخاذِ المسجد علی القبر.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3 : 201
یعنی حدیث کا مفاد قبر کو مسجود بنانے سے منع کرنا ہے، اور ترجمۃ الباب کا مدلول مسجد کا قبر کے اوپر بنانے سے منع کرنا ہے تاکہ قبر، نہ تو معبود اور
مسجود لہ بنائی جائے، اور نہ ہی مسجود الیہ بنائی جائے۔ یہی وضاحت امام کِرمانی،
امام عینی اور دیگر سب ائمہ نے کی ہے۔ اسی کی تصریح امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں بھی کی ہے، قرطبی روایتِ صحیح مسلم ’’لا تصلوا الی القبور‘‘ کی توضیح میں لکھتے ہیں :
أی لا تتخذوها قبلة.
’’یعنی قبور کو قبلہ نہ بناؤ۔‘‘
قرطبی، المفہم، 2 : 628
یہی معنی امام سیوطی نے مرقاۃ الصعود میں بیان کیا ہے :
المعنی أنهم کانوا يسجدون إلی قبورهم.
’’اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ان کی قبور کو سجدہ کیا کرتے تھے۔‘‘
پھر بیان کرتے ہیں :
وقيل : النهی عن السجود علی قبور الأنبيائ، وقيل : النهی عن اتخاذها قبلةً يصلی إليه.
’’یہ کہا گیا ہے کہ نہی اس امر کی ہے کہ انبیاء کی قبور پر سجدہ نہ کیا جاہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں قبلہِ نماز نہ بنایا جائے یعنی ان کی سمت منہ کرکے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘
ملّا علی القاری نے ’’الاوجز‘‘ میں بھی یہی لکھا ہے :
سبب لعنهم إما لانّهم کانوا يسجدون لقبور أنبيائهم تعظيمًا لهم … وإما التوجه الی قبورهم حالة الصلاة.
’’یہود و نصاری پر لعنت کا سبب یا تو یہ تھا کہ وہ اپنے انبیاء کی قبور کو ان کی تعظیم کی خاطر سجدہ کرتے تھے اور یا یہ تھا کہ وہ حالتِ نماز میں ان قبور کی طرف چہرہ کرتے تھے۔‘‘
ان تمام امور سے نہ تو انبیا و صالحین کے مزاراتِ مقدّسہ کی زیارت کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے قرب و جوار سے حصولِ برکت کا انکار ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ اسکے برعکس صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث عائشہ رضی اﷲ عنہا کی شرح میں امام عسقلانی اور امام عینی سمیت سب نے تصریح کی ہے :
فأمّا من اتّخذ مسجدًا فی جوار صالحٍ، وقصد التبرک بالقرب منه، لا التعظيم له و لا التوجه نحوه فلا يدخل فی ذالک الوعيد.
’’پس اگر کسی نے اولیاء و صالحین کے مزار کے قریب مسجد بنائی اور اس کے قرب سے حصول برکت کا ارادہ کیا تو یہ جائز ہے بشرطیکہ تعمیر مسجد قبر کی تعظیم یا اسے قبلہِ توجہ بنانے کے لئے نہ ہو، سو ایسا عمل اس ممانعت میں داخل نہیں ہوتا۔‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 1 : 525
عینی، عمدة القاری، 4 : 174
یہی جواز قاضی البیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ اسی کو امام الطیبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی وضاحۃ بیان کیا ہے۔ اسی قول کو تائیدًا علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں متذکرہ حدیث کے تحت بیان کیا ہے۔ بلکہ اختتام پر یہ کلمات بھی نقل کئے ہیں۔
فلا بأس به و يُرجی فيه النفع ايضًا.
’’اس میں (یعنی مزارات اولیاء و صالحین کے قرب میں مسجد بنانا اور اس سے تبرک کرنا یعنی حصولِ برکت کا ارادہ کرنا جائز ہے۔ اس میں) کوئی حرج نہیں بلکہ اس سے نفع و فیض کی اُمید بھی رکھنی چاہئے۔‘‘
انور شاہ کشمیری، فیض الباری، 2 : 58
حتی کہ قاضی بیضاوی کے اس قولِ جواز کو اور مذکورہ بالا ساری تفصیل کو علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی فتح الملھم بشرح صحیح الامام مسلم میں بیان کیا ہے۔ رہ گئی قبورِ صالحین کی زیارت تو یہ خود سنت ہے۔
شبیر احمد عثمانی، فتح الملھم، 3 : 354، 355
جس کی تصریح امام عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘ میں کی ہے اور بنیاد اس کی احادیثِ صحیحہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابہ کرام کا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہما کا عمل ہے اور ان کی قبور مقدسہ کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا بھی جائز ہے۔ جس کی تائید امام شافعی، امام ابن حبان، امام ابن ابی حاتم الرازی، خطیب بغدادی، امام ابن عساکر، امام ذہبی، امام نووی، امام سخاوی، امام ابن حجر، حافظ ابن کثیر، امام سیوطی سے لیکر امام ابن عابدین ث تک سب ائمہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کی تصریحات سے ملتی ہے۔
آج جو لوگ مزاراتِ انبیاء و اولیاء کی تعظیم کو شرک کے زمرے میں شامل کرتے ہیں اور مزارات پر حاضری کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں انہیں دراصل مشرکین کے اسی عمل سے مغالطہ ہوتا ہے حالانکہ مشرکین کا عمل مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر واضح اور صریح شرک تھا۔ ان دونوں افعال میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں کو ایک جیسا سمجھنے سے قبل ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شرک کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی حقیقت اور تاریخ کو ملحوظ رکھا کریں۔ توسل تعظیم اور عبادت میں واضح فرق کو سامنے رکھے بغیر فتوی لگانے سے ہی فتنہ پیدا ہوتا ہے۔
اہلِ اسلام کا عمل اس سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان مزارات پر صرف اس لیے جاتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو اﷲ تعالیٰ کی قربت، محبت اور اطاعت کی وجہ سے قابلِ احترام سمجھتے ہیں۔ نہ وہاں پر کسی ولی کا بت اور مورتی بنائی جاتی ہے، نہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی چبوترے پر جانور ذبح کر کے خون ملا جاتا ہے۔ الغرض اسبابِ شرک میں کوئی سبب اہلِ اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ رہا قبروں کا احترام کرنا اور ان پر دعا و توسل کے لئے جانا تو یہ نصِ حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت بریدہ ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ القُبُورِ فَزُوْرُوْهَا.
’’میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب زیارت کیا کرو۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربہل فی زیارة قبر أمہ، 2 : 672، رقم : 977
ترمذی، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی الرخصة فی زیارة القبور، 4،3 : 370، رقم : 1054 و زاد : (فَإِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَةَ)
ابوداود، السنن، کتاب الجنائز، باب فی زیارة القبور، 3 : 218، رقم : 3235
اہلِ اسلام صالحین کی قبور پر نہ تو مشرکین کی طرح جانور ذبح کرتے ہیں نہ ان کی عبادت کرتے ہیں نہ وہاں بت رکھے ہوئے ہیں نہ ان کے مجسمے اور نہ انہیں سجدہ کیا جاتا ہے اور نہ اُن سے حاجتیں مانگتے ہیں۔ بلکہ فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ان کی حاضری کا مقصد صرف اور صرف اصلاحِ احوال اور تذکیرِ آخرت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ان سے حصول برکت اور ان کے توسل سے بارگاہ الہٰی میں دعا کی جاتی ہے سو ان میں کوئی عمل بھی نہ تو شرک کے زمرے میں آتا ہے، نہ بدعت کے، اور نہ ہی ممانعت و کراہت کے، یہ سب امور یا تو سنت ہیں، یا مستحسن اور جائز ہیں۔